Siyasat danoo Kay Karnamay.


جسم فروشی جیسے حساس موضوع پر تحقیق کے سلسلے میں جب میں پشاور گیا تو وہاں 

میرے ایک صحافی دوست نے میری ملاقات ایک خاتون سے کرائی جو وہاں سماج 

حلقوں میں خاصی مقبول تھی۔ لیکن حقیقت میں وہ ایک نائیکہ تھی۔ میں اس 

عورت جسے اس کی شناخت ظاہر نہ کرنے کے لئےنامور صحافی اور مضمون نگار منیر 

احمد اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔گل بانو کا نام دیا گیا ہے جب پوچھا کہ 

ایک عورت ہوتے ہوئے دوسری عورت سے جسم فروشی کرانے پر کیا آپ کے 

ضمیر نے کبھی ملامت نہیں؟ تو وہ بولی: ” آپ نے یہ ذکر چھیڑ ہی دیا ہے تو بتائیں 

کہ خریدار کون ہے؟ “ میں گل بانو کے اس حملے کے لئے بالکل تیار تھا کیونکہ میں 

جانتا تھا کہ جس انداز میں سوال کیا جائے گا اسی انداز میں جواب بھی آئے گا۔ 

میں نے فوراً کہا کہ عورت کے خریدار کو اسلامی قوانین کے مطابق کوڑے مارے 

جانا چاہیں۔ گل بانو نے میری طرف غور سے دیکھا۔ اس کی آنکھوں میں غصے کے 

آثار نمایاں تھے۔ لیکن وہ دھیرے سے بولی: ” جب اسلام اپنی اصل شکل میں 

نافذ ہو جائے تو ایسی بات کرنا۔ ابھی ایسی باتیں زیب نہیں دیتیں۔ “ میرا چونکہ 

اسلام اور اسلام قوانین کے بار ے میں علم محدود تھا اس لئے میں نے اس مذہبی 

بحث کو سمیٹتے ہوئے کہا: ” محترمہ! میں تو اتنا جانتا ہوں کہ کوئی شخص خواہ کتنا ہی 

براکیوں نہ ہو، اس کے اندر بٹیھا ہوا شخص اسے برائی سے رکھنے کے لئے ہر 

وقت کوشاں رہتا ہے۔ ہمارے اندر کوئی نہ کوئی آواز ضرور گونجتی ہے کہبرائی سے 

باز آجاؤ لیکن ہم اس آواز پر کان نہیں دھرتے۔ میں جانتا ہوں کہ ایک کتاب 

لکھ دینے سے فحاشی ختم نہیں ہو گی۔ لیکن اس کے باوجود میں شہر شہر کی خاک 

چھان رہا ہوں کیونکہ عورت کو معاشرے میں اس کا جائز مقام دلوانا میرا خواب 

ہے۔ عورت خواہ گھر میں ہو یا گھر سے باہر، اسے عزت و احترام کی نظر سے دیکھا 

جانا چاہیے۔ اسے اس جا چھینا ہوا وقار اگر واپس کر دیا جائے تو فلاحی معاشرہ وجود 

میں آ سکتا ہے۔ میں تو ایسے معاشرے کا حامی ہوں جس میں عورت کی عزت گھر 

کے اندر اور باہر دونوں جگہ محفوظ ہو اور وہ بلا خوف و خطر اپنی رائے کا اظہار کر 

سکے۔ میں تو خواتین کے مساوی حقوق کا حامی ہوں۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ جہاں 

بھی عورت پر ظلم ہوتا ہے اس کا 90 فیصد باعث خود عورت ہی ہوتی ہے۔ عورت 

کے مسائل کا موجب ہے۔ آپ سے تو میں صرف یہ جاننا چاہتا ہوں کہ ایک 

عورت نماز بھی پڑھتی ہے، روزے بھی رکھتی ہے، حج بھی کرتی ہے، زکوٰۃ بھی 

دیتی ہے، صدقہ و خیرات میں بھی سب سے آگے رہتی ہے اور یہ سب کچھ 

کرنے کے باوجود وہ اسلام کے احکامات کو نظر انداز کر کے بازار حسن یا کوٹھوں 

پر بیٹھ جاتی ہے؟ آپ کی نظر میں ایسی عورت کا اسلام میں کیا مقام ہے۔ “میری 

باتیں سن کر گل بانو کے چہرے پر موجود ناگواری قدرے کم ہوئی اور وہ 

بولی:”آپ درست کہتے ہیں۔ عورتوں کے زیادہ تر مسائل خود عورتوں کے ہی پیدا 

کردہ ہیں لیکن اگر مرد مضبوط کردار کا مالک ہو تو عورت کیسے بھٹک سکتی ہے۔ مرد 

ہی عورت کو بازار میں لے آتا ہے۔ اگر مرد دلچسپی نہ لیں تو عورت وہ سب کچھ 

کیسے کر سکتی ہے جو اب ہو رہا ہے۔ جہاں تک بدکار عورت کے سلام میں مقام کی 

بات ہے تو یہ سوال کسی عالم دین سے کریں۔ “ گل بانو نے اپنی بات جاری رکھتے 

ہوئے کہا:” میں پشاور کی رہنے والی نہیں اور نہ میرا نام گل بانو ہے۔ میرے 

والدین کون تھے اور میں کیسے طوائف بنی یہ ایک لمبی اور درد ناک کہانی ہے۔ 

میں چاہوں تو اپنی زندگی پر ایک نہیں کئی کتابیں لکھ سکتی ہوں۔ میرے سینے میں 

سینکڑوں راز دفن ہیں۔ “ گل بانو بات کرتے رک گئی۔ یوں لگتا تھا کہ وہ ماضی 

میں جھانکنے کی کوشش کر رہی ہے۔ اس نے آنکھیں بند کیں اور شاید بچپن کی 

سہانی یادوں میں کھو گئی۔ میرے سامنے اب ایک عورت بیٹھی تھی، وہ عورت جس 

کا ضمیر بیدار تھا اور جو کچھ دیر کے لئے بھول چکی تھی کہ وہ کون ہے۔دیر فضا 

میں خاموشی طاری رہی۔ میں اور پشاور کا میرا دوست صحافی اس کے چہرے کے 

اتار چڑھاؤ کو غور سے دیکھتے رہے۔ اتنی دیر میں اس کے موبائیل فون کی گھنٹی 

چیخی۔ اس نے فون ریسیو کیا اور خالص کاروباری انداز میں ” جی“، ” ٹھیک“، ” 

پہنچ جائے گی“، ” خادم ہیں“ وغیرہ وغیرہ جیسے الفاظ استعمال کیے۔ فون بند کرتے 

ہوئے کسی کو آواز دی۔ ملازمہ کے اندار آنے پر اس نے کہا : ” فائزہ کو کہو کہ 

ہوٹل۔ کے کمرہ نمبر 7 میں ٹھیک 5 بجے پہنچ جائے۔ “ اس کے بعد وہ ہماری 

طرف متوجہ ہوئی اور بولی : ” جانتے ہو کس کا فو ن تھا؟ “ پھر وہ خود ہی بولی۔ : ” 

تم کیسے جان سکتے ہو! “ خاموش رہنے پر وہ بولی تمہارے پنجاب کے ایک اہم 

سیاستدان صاحب کا فون تھا۔ وہ کل سے یہاں ٹھہرا ہوا ہے۔ چاہو تو کل اس سے 

مل لینا۔ لیکن میرا ذکر نہ کرنا۔ “جس طریقے سے گل بانو نے پنجاب کے ایک 

اوباش سیاستدان کا ذکر کیا وہ انداز مجھے اچھا نہ لگا۔ میں نے کہا: ” چلو مان لیتے ہیں 

کہ پنجاب کے سیاستدان بدکردار ہیں لیکن بتائیں کہ سرحد کے ارکان پارلیمنٹ کا 

زیادہ وقت کیا مساجد میں گزرتا ہے؟ “گل بانو بولی : ” خود ہی سروے کر کے دیکھ 

لیں کہ رنگیلے سیاستدانوں میں سے پنجاب سے تعلق رکھنے والوں کی تعداد کتنی 

ہے۔ “ میں نے کہا: ” اس کی وجہ یہ ہے قومی اسمبلی میں پنجاب کی نشتیں زیادہ 

اور باقی صوبوں کی کم ہیں۔ گل بانو بولی: ” پنجاب کی ترقی پر ہمیں کوئی افسوس 

نہیں ہے۔ ہمیں تو رزق ہی پنجاب سے ملنا ہے۔ “ پھر اس نے فوراً پنیترا بدلا۔ 

بولی : ” اللہ کے حکم کے بغیر درخت کا پتہ بھی نہیں ہل سکتا۔ کیا یہ سچ نہیں کہ 

دنیا میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ اللہ کی مرضی سے ہو رہا ہے“ میں نے بحث کو 

طوائف سے آسمان کی طرف جاتے دیکھا تو عافیت اسی میں سمجھی کہ یہاں سے 

چل دیا جائے۔ میرے ارادے کو بھانپ کر وہ بولی: ارے ارے، آپ تو ناراض 

ہو گئے۔ میرا تو خیال تھا کہ آپ جیسے دانشوروں سے مجھے کچھ سیکھنے کا موقعہ ملے 

گا لیکن آپ تو بس ایسے ہی نکلے۔ تشریف رکھیں، میں کھانا کھائے بغیر نہیں جانے 

دوں گی۔ “ میں نے کہا : ” گل بانو آپ دراصل کھانے کھلا کر یہ پوچھیں گی کہ 

حرام اور حلال کمائی سے پکنے والے کھانے میں ہمیں کوئی فرق محسوس ہوا یا 

نہیں۔ “وہ بولی : ” یہ تو چور کی داڑھی میں تنکے والی بات ہے۔ ورنہ میرے دل 

میں تو ایسی بات نہ تھی۔ تشریف رکھیے، میں آپ کو مایوس نہیں کروں گی۔ 

میرے پاس آپ کی دلچسپی کا کافی سامان موجود ہے“ یہ کہہ کر وہ اٹھی اور ساتھ 

والے کمرے میں چلی گئی جہاں غالباً وہ مطالعہ وغیرہ کرتی ہو گی۔ اس کی واپسی چند 

منٹ ہوئی۔ اس کے ہاتھ میں ایک کیسٹ تھا جسے اس نے وی سی آر میں لگا کر 

پلے کر دیا۔ اب ہماری آنکھیں مختلف سیاستدانوں، بیورو کرٹیس اور اعلیٰ شخصیات کا 

خوفناک چہرہ دیکھ رہی تھیں۔ وہ بولی : ” اس طرح کے سینکڑوں کیسٹ انٹیلی 

جینس ایجنسیوں کے پاس ہیں۔ میں نے بھی یہ کیسٹ کسی ایجنسی کے لئے تیار کیا 

تھا۔ وہ بولی میرے گاہک نہیں بلکہ جس گلوکارہ کو آپ ان حضرات کے ساتھ غیر 

فطری، غیر اخلاقی اور غیر قانونی حرکات کرتے ہوئے دیکھ رہے ہیں یہ اس کی 

کارستانی ہے۔ وہ معزز شخصیات کو گھر بلا کر ان کے بلیو پر نٹس تیار کرواتی ہے۔ “ 

ہم حیران تھے کہ کیسے معزز لوگ طوائفوں کے ساتھ رنگ رلیاں مناتے ہیں۔ وہ 

بولی: ” آج اگر یہ کیسٹ ریلیز کر دیا جائے تو کئی مذہبی اور سیاسی رہنما ذلیل و 

رسوا ہو جائیں۔ “ میں نے کہا : ”آپ تو بڑی خطرناک عورت ہیں کہیں ہماری بھی 

فلم تو نہیں بن رہی۔ “
Siyasat danoo Kay Karnamay. Siyasat danoo Kay Karnamay. Reviewed by Raaztv on October 19, 2018 Rating: 5

No comments:

Featured Posts

Powered by Blogger.